📖 سورۃ البقرہ – آیت 30
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَـٰٓئِكَةِ إِنِّى جَاعِلٌۭ فِى ٱلْأَرْضِ خَلِيفَةًۭ ۖ قَالُوٓا۟ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ ٱلدِّمَآءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّىٓ أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ
اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا: میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا: کیا تو وہاں ایسے کو بنائے گا جو فساد کرے گا اور خون بہائے گا؟ حالانکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح اور تقدیس کرتے ہیں۔
اللہ نے فرمایا: میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
ابن کثیرؒ: مراد حضرت آدمؑ اور ان کی اولاد ہیں۔ خلافت کا مطلب زمین پر اللہ کے احکام کے مطابق زندگی بسر کرنا اور عدل قائم کرنا ہے۔ فرشتوں کا سوال اعتراض نہیں تھا بلکہ حقیقت کو سمجھنے کی طلب تھی۔ اللہ نے فرمایا کہ اس فیصلے میں حکمت ہے جو صرف وہی جانتا ہے۔
📖 Sūrah al-Baqarah – Verse 30
﴿وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَـٰٓئِكَةِ ...﴾
And when your Lord said to the angels: “I am going to place a vicegerent on earth.” They said: “Will You place therein one who will cause corruption and shed blood, while we glorify You with praise and sanctify You?”
He said: “I know what you do not know.”
Ibn Kathīr: This refers to Adam (peace be upon him) and his descendants. “Vicegerent” means one who lives by Allah’s command and establishes justice. The angels’ question was not objection but a request for understanding. Allah affirmed that His decision carries wisdom they could not comprehend.